Abdul Haq Arif

یہ بات 27 جولائی 2015 کی ہے ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ سے تعلق رکھنے والے خوبصورت لب و لہجے کے شاعر عبدالحق عارف صاحب نے رابطہ کیا اور کہا کہ وہ ایک کتاب ترتیب دے رہے ہیں دِیدہ وَر کے نام سے جس میں پاکستانی اور بیرون ملک مقیم  پاکستانی شاعر ادیب محسنِ پاکستان محترم جناب ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی خدمات کے حوالے سے منظوم خراج عقیدت پیش کریں گے، لہذا آپ سے گزارش ہے کہ آپ ڈاکٹر عبدالقدیر خان صاحب کے لیے کچھ لکھیں .عبدالحق عارف صاحب سے 2012 سے ایک محبت کا رشتہ ہے جو کہ ابھی تک قائم ہے اُن کے ساتھ مل کر بہت سے مشاعرے پڑھے بہت سے شہروں میں بہت سی ادبی تقریبات میں شرکت کی لہذا اُن کو انکار کرنا ممکن ہی نہ تھا اُسی رات محسنِ پاکستان جناب محترم ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے اعزاز میں ایک منظوم خراجِ عقیدت نظم کی صورت میں فیس بک کے ان باکس میں انہیں بھیج دیا کچھ  عرصہ کے بعد عبدالحق عارف صاحب کی دن رات محنت اور انتھک لگن کی بدولت کتاب تو ترتیب دے دی گئی لیکن اُس کی اشاعت ممکن نہ ہو پائی جو کہ بعد ازاں 2023 میں ماہوزا پبلکیشن فیصل آباد نے شائع کی کتاب کی تقریبِ رونمائی کے حوالے سے بہت دفعہ تاریخ طے ہوئی لیکن تقریب بروقت ممکن نہ ہو پائی کتاب دِیدہ وَر میں 210 نامور شعراء کرام کا منظوم خراجِ عقیدت شامل ہے پھر اچانک 19 مئی 2024 کو عبدالحق عارف صاحب کا واٹس ایپ موصول ہوا جس میں انہوں نے یہ خبر دی کہ ادارہ خیال و فن لاہور اور اکادمی ادبیات لاہور کے زیر اہتمام 21 مئی 2024 بوقت 4 بجے شام میری ڈاکٹر قدیر خان صاحب پر مرتب کردہ کتاب دِیدہ وَر جس میں آپ کا کلام بمعہ تصویر موجود ہے کی تقریب کا انعقاد کیا جا رہا ہے آپ نے اُس پروگرام میں ضرور تشریف لانا ہے اِس موقع پر آپ کو ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی طرف سے ایک عدد اظہار تشکر و دعا کا سرٹیفیکیٹ معہ اُن کے ہاتھ  سے کیے گئے دستخط اور دِیدہ وَر کتاب کا تحفہ بطور ہدیہ پیش کیا جائے گا عبدالحق عارف صاحب کے ساتھ محبت، پیار اور عقیدت کا رشتہ تو بہت پرانا تھا تو میں نے جواباً کہا کہ انشاءاللہ تعالی بشرطِ زندگی ضرور شرکت کروں گا میرے لیے یہ دعوت کسی اعزاز سے کم نہیں ہے مختصراً میں عبدالحق عارف صاحب کو ایک شاندار کتاب کی تقریبِ رونمائی کرنے پر دلی مبارکباد پیش کرتا ہوں اور اُن کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ اُنہوں نے مجھے کتاب اور سرٹیفیکیٹ پیش کیاتقریب کی چند تصاویر آپ دوستوں کے لیے اور منظوم خراج عقیدت محترم محسن پاکستان جناب ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے لیے

نظم 

” آخر اُن کو جواب دینا تھا “

” وہ جو ہم کو مٹانا چاہتے تھے “

دھمکیاں روز دیتے رہتے تھے 

روز جنگوں کی بات ہوتی تھی  

روز توپیں گرجتی رہتی تھیں 

کشت و خوں کا وہ معرکہ جس میں 

جنگ پینسٹھ کی فتح یابی نے 

سرفرازی کا تاج بخشا تھا 

” اُن کو آخر جواب دینا تھا “

” وہ جو ہم کو مٹانا چاہتے تھے “

پھر اکہتر کی جنگ نے ہم کو 

ایک بازو سے کر دیا محروم 

جاں بچانے کی فکر تھی لاحق 

ایک امید کی کرن چمکی 

ایک لیڈر کے زہن میں آیا 

کیوں نہ لے آئیں اپنے ہیرو کو 

ملک کی سرحدیں کریں محفوظ

ایک آواز پر چلا آیا 

میرا عبدالقدیرہے جس نے لاکھوں عبدالقدیر بخشے ہیں 

پنجہءِ جبر سے بچایا ہے 

روبرو اُس نے اپنے دشمن کے 

سر اٹھا کے چلنا ہمیں سکھایا ہے 

” اُن کو آخر جواب دینا تھا “

” وہ جو ہم کو مٹانا چاہتے تھے “

ہم زمیں  پر ہیں ایٹمی قوت 

کس میں ہمت ہے اب ہمیں دیکھے 

میلی آنکھوں سے غیض کے رنگ میں 

تلخ لہجے میں بات سننے کا اب تو کوئی نہیں جواز آخر 

اپنی حرکات سے میرا دشمن آ گیا ہے نہ اب تو باز آخر 

پاس رکھتے ہیں جوہری ہتھیار 

ہم زمیں پر ہیں ایٹمی قوت

میرے محسن تمہارے احساں کا قرض کیسے اُتار سکتے ہیں 

یہ ” زمیں ” اور ” میں “

ہم 

دونوں

 

مدثر حبیب جامی

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top